ائشہ نے ان کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا لیکن وہ تب بھی اپنے ہاتھ کو اپنی جگہ سے نہیں ہلا پائیں تھیں۔ اسی طرح سے اپنی جگہ پر بیٹھی رہیں تھیں۔
اب انہوں نے عائشہ کو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کی پشت سے گالوں پر آئے آنسو صاف کرتے دیکھا۔ پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور دروازے کی جانب بڑھی تھی۔ ان کی نظر عائشہ پر جمی ہوئی تھی۔ دروازے تک پہنچ کر انہوں نے اسے ہینڈل گھماتے دیکھا اور اب وہ دروازہ کھول چکی تھی اور پھر اگلے ہی پل وہ باہر نکل کر دروازہ بند کر گئی تھی۔
انہیں نے ایک گہری سانس لے کر بیڈ پر ٹانگیں اونچی کر لیں تھیں اور اس کی بیک سے کمر لگا کر جیسے پھر کسی سوچ میں گم ہو گئی تھیں۔ عائشہ کی یہ کیفیت ان کے لئے نئی نہیں تھی لیکن پھر بھی انہیں اس کی جانب دکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ شاید ۔۔۔۔ شاید وہ عائشہ کے حوالے سے اس بات کو بھلا چکی تھیں۔ تبھی تو اتنے عرصے بعداسے اس کیفیت میں دیکھ کر وہ پہلے پریشان ہوئیں اور کچھ سمجھ آنے پر ان کی پریشانی حیرانگی میں تبدیل ہو گئی۔
کبھی کبھی انسان کتنا بے بس ہو جاتا ہے۔ زندگی کے کچھ تلخ حقائق کو بھلانے کی کوشش میں ناکامی انسان کو کس بے چارگی میں مبتلا کر دیتی ہے کہ وہ کچھ بھی سوچنے کا اہل نہیں رہتا۔۔۔ اور ان کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا۔ان کی سوچ بھی اس لمحے ایک نقطے پر آکر ٹھہر گئی تھی۔
عائشہ نے ان سے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں جس سے وہ اس کے بے سبب رونے کا مطلب سمجھ سکتیں لیکن ۔۔۔ لیکن وہ تب بھی جان گئیں تھیں تو کیا ابھی تک وہ خوف اس کے دل میں موجود ہے۔ کیا اتنے سال کا عرصہ بھی اس کے وجود پر چھائے اس انجانے خوف کے حصار کو توڑنے میں ناکام رہا ہے۔
انہوں نے آنکھیں موند لیں تھیں۔ انہیں یاد آیا تھا۔
’’پھپھو ۔۔۔پھپھو۔‘‘
’’پھپھو! آپ کدھر ہیں؟‘‘
’’پھپھو۔۔۔!‘‘ وہ کمرے میں اس کی آواز سن کر آتیں تو آہٹ پا کر انہوں نے اسے مڑتے دیکھا۔
’’ارے کیا ہوا عائشہ؟‘‘ وہ اس کا چہرہ دیکھ کر پریشان ہو گئیں تھیں۔ پھر انہوں نے عائشہ کو زمین پر بیٹھ کر روتے دیکھا تھا۔
’’کیا ہوا عائشہ؟‘‘ انہوں نے ایک مرتبہ پھر پوچھا۔ اب وہ اس کے قریب چلی آئی تھیں۔
’’آپ کدھر چلی گئیں تھیں؟‘‘ وہ بلک رہی تھی۔
’’میں باہر صحن میں سبزی کاٹ رہی تھی۔‘‘ اب بھی اس کے رونے میں کمی نہیں آئی تھی۔
’’کیا بات ہے کسی نے کچھ کہا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ روتے ہوئے اس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
’’پھر رو کیوں رہی ہو؟‘‘
’’میں ۔۔۔ وہ۔۔۔ آج ٹیسٹ میں نمبر اچھے نہیں آئے۔‘‘ یکدم ہی اس کا رونا جیسے تھم گیا تھا۔
’’لو۔۔۔اتنی سی بات کے لئے رو رہی ہو اگر اس دفعہ نمبر اچھے نہیں آئے تو کوئی بات
Categories:
Uncategorized Tags:
کی پشت سے صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔
چند لمحے طاہرہ بیگم خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں تھیں۔
’’پتہ نہیں کیا ہوا ہے دونوں کو ۔۔۔۔ اس سے پوچھو تو ویسے ہی کہہ کر چل دیتا ہے اس سے پوچھو تو ویسے ہی کہہ کر بات بدل دیتی ہے۔ پتہ نہیں دونوں کیا سوچے ہوئے ہیں۔‘‘ وہ ناشتے کی ٹرے لئے بغیر ہی کچن سے نکل گئیں تو ایک دم ہی ندامت کے احساس نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ وہ باہر آئی تھی لیکن اسے وہاں پھپھو نظر نہیں آئی تھیں۔
وہ ایک گہری سانس لیکرمڑی تھی۔ سلیب پر پہلے ٹرے ہاتھ میں پکڑی تھی اور اندر چلی آئی۔ ایک دروازے کے آگے کھڑے ہو کر اس نے چند لمحے سوچا تھا اور پھرناک کر کے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔
اس کا اندازہ ٹھیک تھا وہ کمرے میں موجود تھیں۔
’’پھپھو۔۔۔!‘‘ اس نے ہمت کر کے دوبارہ پکارا تھا۔
اب بھی انہوں نے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر سے اپنی آنکھوں میں نمی کو اترتے دیکھا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
’’عائشہ!‘‘ طاہرہ بیگم نے حیرت سے اسے روتے دیکھا تھا پھر اُٹھ کر اس کے پاس آئیں تھیں۔ اسے بازو سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا۔ پھر خود بھی اس کے قریب بیٹھ کر اپنے ہاتھ سے اسکی کمر سہلانی بند کر دی تھی اور اسے اپنے سے الگ کیا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھنے لگیں تھیں کہ عائشہ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔
انہوں نے اس کے ہاتھ کی گرفت میں اپنے ہاتھ کو دیکھا تھا پھر دوسری نظر انہوں نے عانشہ کے چہرے پر ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہی تھیں۔ وہ ہنوز سر جھکائے سسکیاں لے رہی تھی۔
ایک مرتبہ پھر انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی تھی اور اب انہوں نے اپنے ہاتھ پر عائشہ کے ہاتھ کی گرفت اور سخت محسوس کی تھی۔
’’آپ بیٹھی رہیں۔۔۔۔ میرے پاس رہیں۔‘‘
’’عائشہ! میں تمہارے لئے پانی۔۔۔۔‘‘ انہوں نے کہنا چاہا تھا لیکن اس نے انہیں بولنے نہیں دیا۔
’’نہیں میں نے کہا نا آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جائیں گی۔ آپ میرے پاس رہیں مجھے پانی نہیں چاہئے مجھے کچھ نہیں چاہئے بس ۔۔۔۔ بس آپ میرے پاس رہیں۔‘‘ انہوں نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ پھر گہری سانس لے کر انہوں نے نظریں موڑ لیں اور دوسری جانب دیوار پر نظریں جمائے وہ جیسے کسی گہری سوچ میں گم ہو گئی تھیں۔ انہوں نے دوبارہ اٹھنے کی کوشش نہیں کی تھی اور نہ ہی انہوں نے مزید عائشہ سے کچھ کہا تھا۔
کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے ہاتھ پر عائشہ کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑتی محسوس کی تھی۔ انہوں نے نظر پھیر کر ایک مرتبہ پھر سے سر جھکائے اس کے وجود کو اپنے قریب بیٹھے دیکھا تھا۔
Categories:
Uncategorized Tags:
’’آپ چائے پی لیں؟‘‘ اس نے ان کا دھیان بدلنے کی خاطر کہا تھا۔
’’ہاں بھائی اب صبح ہی صبح کڑوی کسیلی چائے حلق سے اتارو۔ پہلے ہی زندگی کی تلخیاں کچھ کم ہیں جو چائے کو مزید ان کا حصہ بنایا جائے۔‘‘ جواب میں وہ خاموش رہی تھی کہ یہ ان سے بچنے کی راہ تھی۔ اس نے کچن میں گھسنا چاہا تھاکہ اسے اپنے پیچھے آواز سنائی دی تھی۔
’’ذرا ایک گلاس سیبوں کا جوس نکال کر کمرے میں دے دینا۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘ آہستگی سے سر جھٹکتے ہوئے وہ بولی۔
’’اور ہاں عائشہ تم خود بھی ضرور پینا چہرے کی سکن فریش رہتی ہے۔‘‘ اس نے انہیں کہتے سنا۔
’’جی آپ کی skinسے پتہ چل رہا ہے۔‘‘ وہ بس سوچ کر رہ گئی تھی۔
’’سنو عائشہ!‘‘ وہ اب کمرے میں جانے کی بجائے کچن کے دروازے میں آن کھڑی ہوئی تھیں۔
’’جی چچی۔‘‘
’’یہ میری سکن آج کل کچھ خراب نہیں ہونے لگی۔‘‘ پتہ نہیں وہ اسے بتا رہی تھیں یا پھر پوچھ رہی تھیں۔ ابھی وہ اسی خیال میں تھی کہ ایک مرتبہ اسے پھر سے ان کی آواز آئی۔
’’تمہیں کیسا لگتا ہے؟‘‘ اس نے سیب کاٹتے ہوئے ان کے چہرے پر نظر ڈالی تھی۔
’’مجھے تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا ہمیشہ کی طرح ہی تو ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نظریں جھکا کر پھر سے سیب کاٹنے لگی تھی۔ لیکن نظر جھکاتے جھکاتے بھی وہ چچی کے چہرے پر پھیلتی الجھن دیکھ چکی تھی۔
ہاں اس کا جواب بھی تو ایسا تھا کہ پتہ ہی نہ چل سکے کہ تعریف کی گئی ہے یا پھر ۔۔۔ چلو چچی کی صحبت کا ایک اثر تو ہو کہ بات گھما پھرا کر کرنے کا ڈھنگ آگیا۔ نہیں تو وہ تو صاف سیدھی بات منہ پر کہنے کی عادی تھی اور اب بھی کئی مرتبہ اس کے منہ سے صحیح بات نکل جاتی ہے کہ فطرت کو بدلا تو نہیں جا سکتا۔ ہاں البتہ اس میں تھوڑی لچک پیدا کی جاسکتی ہے لیکن بہرحال وہ فرزانہ چچی کے معاملے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیتی تھی۔
’’چچی! آپ تو ایسے ہی پریشان ہو رہی ہیں بہت اچھی سکن ہے آپ کی۔‘‘ اس نے ایک مرتبہ پھر diplomacy سے کام لے کر چچی کو الجھن سے نکالا تھا۔
’’ ہاں میرا بھی یہی خیال تھا پھر میں facialاور maskبھی تو باقاعدگی سے کرتی ہوں۔ اتنی کےئر پر بھی سکن اچھی نہ نظر آئے گی‘‘ پتہ نہیں وہ خود کلام تھی کہ اسے سنا رہی تھیں۔
اس نے ایک نظر پھر ان کے سانولے چہرے پر ڈالی تھی۔ جہاں freshnessکا نام ونشان تک نہیں تھا۔
’’اگر ایسی کےئر چھوڑ دیں تو ان کی Skinبہتر نظر آنے لگے۔‘‘ وہ سوچ کر رہ گئی۔
’’اچھا میں جا رہی ہوں پانچ منٹ میں جوس لے آنا۔‘‘ یکدم ہی ان کا پہلا لہجہ دوبارہ در آیا تھا۔ کام جو پورا ہو گیا تھا۔
’’کاش میں بھی فرزانہ چچی جیسی ڈپلومیسی کو اپنا روزمرہ کا معمول بنا سکوں۔ ‘‘ یہ سوچتے ہوئے اس نے جیوسر کا ڈھکن بند کر کے سوئچ آن کر دیا تھا۔ وہ فرزانہ چچی کو جوس دے کر ان کے
کمرے کا دروازہ بند کر رہی تھی کہ اسے طاہرہ بیگم کا خیال آیا۔ وہ ٹرے رکھنے کچن میں چلی آئی تھی لیکن کچن میں سلیب کے قریب کھڑے اپنی جانب سے پشت کئے وجود پر نظر پڑتے ہی وہ تیزی سے واپس مڑی تھی۔
’’کیسی ہو عائشہ؟‘‘
’’جی ٹھیک ہوں؟‘‘ مختصر الفاظ میں اس نے جواب دیا۔
’’ناشتہ کیا ہے یا بنادوں؟‘‘
’’ نہیں دل نہیں کر رہا۔‘‘ بے دلی سے اس نے جواب دیا۔
’’ دل کر رہا ہے یا نہیں لیکن میں تو بتا چکی ہوں تیمور کے لئے پراٹھا بنایا تو ساتھ تمہارے لئے بھی بنا لیا۔‘‘
’’لیکن ابھی تو آپ نے پوچھا تھا۔‘‘
’’وہ اس لئے کہ مجھے معلوم تھا کہ تم۔‘‘ اس نے کہنا چاہا کہ وہ اس کی بات ٹوکتے ہوئے بولیں۔ وہ مڑی تھیں اور اس پر نظر پڑتے ہی ٹھٹھک گئیں تھیں۔
’’عائشہ!‘‘
’’ جی آپ کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ وہ قصداً مسکرائی تھی۔
’’عائشہ ۔۔۔کیا ہوا بیٹا؟ تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ اپنے لہجے میں تشویش لئے اس نے انہیں اپنے قریب آتے دیکھا۔
’’ جی مجھے کیا ہو نا ہے ایک دم ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے اپنے ہونٹوں کو مزید پھیلا کر لہجہ خوشگوار بنانے کی کوشش کی۔
’’پھر جھگڑا ہوا ہے تیمور سے؟‘‘ اپنے لہجے میں تشویش لئے اس نے انہیں اپنے قریب آتے دیکھا۔
’’نہیں آپ کو پتہ تو ہے میں نے کبھی جھگڑا کیا ہے؟‘‘ ایک مرتبہ پھر اس نے مسکرانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہی تھی۔
’’میں ابھی پوچھتی ہوں حد ہوتی ہے کسی بات کی۔‘‘ اس کی آنکھوں میں اُمڈتا پانی دیکھ کر انہیں جیسے اپنے کہے کی تصدیق ہو گئی تھی۔
’’نہیں پھپھو !میں سچ کہہ رہی ہوں تیمور نے کچھ نہیں کہا۔‘‘
’’تو پھر ۔۔۔ اباجان نے ڈانٹا ہے؟‘‘
’’انہوں نے تو کبھی ڈانٹا ہی نہیں۔‘‘
’’کہیں ۔۔۔۔ کہیں فرزانہ سے تو کھٹ پٹ نہیں ہو گئی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ یہیں تھی۔‘‘
انہوں نے ایک مرتبہ پھر سے قیاس لگانے کی کوشش کی تھی اور جواب میں اس نے کچھ کہے بغیر نفی میں سر ہلا دیا تھا۔
’’تو پھر۔۔۔۔؟‘‘
’’آپ ایسے ہی فکر کر رہی ہیں کہا نا ویسے ہی؟‘‘ اس نے گالوں پر آئے آنسو ہتھیلیوں
…to be continued
کچن میں بتا آؤ۔‘‘
’’نہیں نانا جان! ابھی تو رات کا کھانا بھی ٹھیک سے ہضم نہیں ہو پایا۔‘‘ یہ کہتے ہی اس کی نظر دروازے کی جانب اٹھی تو اس نے عائشہ کو ہاتھ میں چائے کی پیالی لئے آتے دیکھا تھا۔
اس نے قریب آکر پیالی وقار کی جانب بڑھائی تھی۔ انہوں نے اخبار اس کے ہاتھ میں دے کر پیالی اس کے ہاتھ سے پکڑلی۔ اب اس نے عائشہ کو اخبار طے کرتے دیکھا تھا۔
’’السلام علیکم۔‘‘ چند لمحے وہ ا سکی مصروفیت دیکھتا رہا پھر خود ہی بولا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ بغیر نظریں ملائے وہ بولی تھی۔ اور اسے ایک سیکنڈ لگا تھا جاننے میں اس چیز کو اس بات کو جسے وہ نظریں جھکائے چھپانے کی کوشش میں تھی۔
’’ناشتہ کرو گے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘اس نے جواب دیا۔
اور جیسے وہ ا سکے جواب کی منتظر تھی کہ اس کا جواب ملتے ہی مڑی ۔
’’نانا جی !آپ عائشہ کو منع کریں کہ وہ رات کو اس طرح باہر نہ کھڑی ہوا کرے۔‘‘
’’میں کہہ دوں گا۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔؟‘‘ بے ساختہ ہی اس کی زبان سے پھسلا تھا۔
’’یہی کہ میں رات کو باہر کھڑی نہیں ہوا کروں گی۔‘‘ اس نے عائشہ کو مڑ کر جوا ب دیتے دیکھا تھا۔
’’کیوں دادا جان۔‘‘ اب وہ وقار علی کی جانب متوجہ تھی۔ اس نے عائشہ کے لبوں پر مسکراہٹ کو ابھرتے دیکھا تھا۔
’’تم بلا وجہ ہی پریشان تھے۔ اتنی سی بات کے لئے دادا جان کو شکایت لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ تم خود ہی مجھ سے کہہ دیتے کہ تم رات میں اس طرح باہر کھڑی نہ ہوا کرو۔ بھلا اس سے کیافرق پڑتا ہے کہ میں کھڑی ہو ں یا بیٹھ جاؤں خیر میں آئندہ سے بیٹھ جایا کروں گی۔ ٹھیک اب تو کوئی شکایت نہیں مجھ سے۔‘‘ بات ختم کر کے وہ اسی جانب دیکھتے ہوئے جیسے سوالیہ اندازمیں پوچھ رہی تھی اور کچھ دیر بعد وہ مڑ کر اندر چلی گئی تھی۔
چند لمحے تو وہ سمجھ ہی نہیں پایا تھا۔ لیکن جونہی سمجھ میں اس کی کہی بات آئی تو جیسے اس نے الجھ کر وقار علی کی جانب دیکھا تھا جو کہ کپ ہونٹوں سے لگائے یقیناًاپنی مسکراہٹ چھپانے کی کوشش میں تھے۔
’’نانا جان! آپ اسے کیوں نہیں سمجھاتے۔‘‘
’’وہ نہیں مانتی۔‘‘
’’نہیں مانتی۔۔۔۔ آپ کی بات نہیں مانے گی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ بھی تو اسے پیار سے کہتے ہیں ایک مرتبہ ڈانٹ کر تو کہیں تو دیکھتا ہوں کہ کیسے نہیں مانتی وہ۔‘‘ اس نے جیسے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔
’’اس کا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ پرسکون لہجے میں جواب آیا تھا۔
’’جی کس بارے میں؟‘‘ اپنی بات کے جواب میں وہ وقار علی کی زبان سے ادا ہوئے
جملے کو سن کر بولا۔
’’وہ بھی یہی کہتی ہے کہ اگر میں تمہیں ایک مرتبہ ڈانٹ کر رات گھر جلدی آنے کا کہوں تو تم بھی میری بات سے انکار نہیں کروگے۔‘‘
’’ناناجان! آج کل حالات ٹھیک نہیں ہیں۔‘‘ وہ پھر زچ ہوا تھا۔
’’میں اس کی حمایت نہیں کر رہا۔‘‘ ان کا لہجہ ہنوز تھا۔
’’تو پھر آپ اسے کیوں نہیں کہتے جب وہ ایک غلط کام کرتی ہے۔‘‘ اب آہستہ آہستہ اس کے غصے کا گراف بڑھنے لگا تھا۔
’’جب وہ غلط کام کرے گی تو اسے ضرور کہوں گا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے تو پہلے تم مجھے بتاؤ کہ میرے کہنے کا تم پر کتنااثر ہے؟‘‘
’’آپ کوئی کام کہہ کر تو دیکھیں۔‘‘ اس نے جیسے انہیں چیلنج کیاتھا۔
’’کام نہیں بس ایک بات ہے کہ تم رات میں گھر جلدی واپس آیا کرو۔‘‘ وہ یکدم ہی خاموش ہو گیا تھا۔ پھر اس نے مزید کوئی بات نہیں کی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اب بات کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہے۔ اس نے خاموشی سے نظریں دور کیاری میں کھلے گلاب کے پودے پر جما دیں تھیں۔
(***)
وقا رعلی کے لئے چائے کا کپ ہاتھ میں لئے وہ باہر نکلی تو اسنے تیمور کو وہاں بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ ایک پل کو اس کا دل چاہا کہ وہ واپس ہو جائے۔ پتہ نہیں وہ کیوں اس کاسامنانہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ۔۔۔۔ نجانے وہ کب تک وہیں بیٹھا رہے گا اور پھر چائے۔۔۔۔؟
اس نے واپس مڑنے کے خیال کر ترک کر دیا تھا اور نظریں جھکائے وہ چلی آئی تھی۔ وقار علی کو چائے پکڑا کر وہ مڑنے لگی کہ انہوں نے اس کے ہاتھ میں اخبار پکڑا دی تھی۔ نظریں جھکائے وہ اخبار طے کر کے ایک مرتبہ پھر مڑنے لی کہ تیمور نے اسے سلام کیا تھا۔ یہ نہیں تھا کہ وہ اس سے انجان تھی یا پھر ناراض تھی ایسا کچھ بھی نہیں تھا بس وہ اس سے نظریں ملانا نہیں چاہ رہی تھی اور اس کی وجہ وہ جانتی تھی تبھی تو اس وقت تک اس نے نظریں نہیں اٹھائیں تھیں جب تک اسے یقین تھا کہ تیمور بے خبر ہے اور پھر جونہی اس نے محسوس کیا ہے کہ وہ جان چکا ہے تب بے دھڑک ہی اپنے ارد گرد کے نا معلوم حصار سے نکل آئی تھی۔ وہ تین جملوں کے اس نے جواب دئیے تھے پھر وہ اندر چلی آئی تھی۔
اندر جاتے جاتے اسے تیمور کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ دادا جان سے کچھ کہہ رہا تھا۔ اس نے رک کر سننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ جانتی تھی کہ وہ ہمیشہ کی طرح دادا جان سے کیا کہہ رہا ہو گا اور ہمیشہ کی طرح دادا جان نے کون سا جواب دے کر اسے خاموش کرایا ہوگا۔ اندر داخل ہوتے ہی فرزانہ چچی نظر آئیں تھیں۔
’’جی۔‘‘
’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھی سلائیس پر جام لگاتے ہوئے انہوں نے اسے دیکھا۔
…to be continued
.
Categories:
Uncategorized Tags:
کروٹ بدلتے ہی اس کی آنکھ کھلی تھی۔ آنکھیں کھولے تھوڑی دیر کے لئے وہ کمرے میں آتی روشنی سے وقت کا اندازہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر سر گھما کر سائیڈ ٹیبل پر پڑے ٹیبل پر نظر کی تھی۔ اگلے ہی پل وہ جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا تھا۔
’’اوہ ۔۔۔۔ سات بج گئے۔‘‘
وہ عموماً صبح چھ بجے تک اٹھ جایا کرتا تھا۔ ایک معمول سا بن گیا تھا کہ رات چاہے کتنی ہی دیر سے سوئے صبح مقررہ وقت پر اس کی آنکھ کھل جاتی تھی لیکن آج پتہ نہیں وہ کیوں بے خبرسورہا تھا۔ شاہد وہ رات بستر پر لیٹنے کے کافی دیر تک سو نہیں پایاتھا۔ پھر اسے یاد آیا تھا کہ جب اس کی آنکھ لگی تھی تو اس وقت اس کے کان میں اذان کی آواز آئی تھی۔ بالوں میں انگلیاں پھیر کر اس نے انہیں سلجھایا اور پھر سلیپر پہن کر غسل خانے چلا گیا تھا۔
واپس نکلا تو کپڑے تبدیل کئے ہوئے تھے۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے بالوں میں کنگھی کی اور پھر کمرے سے باہرنکل آیا تھا۔ اپنے کمرے سے تین کمرے چھوڑ کر اس نے ایک کمرے میں نظر دوڑائی تھی۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ پھر اس کی نظر باتھ روم کے دروازے کی جانب اٹھی تھی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ پھر کچھ سوچ کر چند قدم آگے جھانکا۔ اس نے
انہیں لان میں اخبار پڑھتے پایا وہ مڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا پھر اس کے قدم باہر کی جانب بڑھے تھے۔ ان کے قریب پہنچ کر اس نے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام کیسے ہو؟‘‘ایک نظر انہوں نے اخبار سے نظریں اٹھا کر اس پر ڈالیں تھیں اور پھر سر جھکا کر نظریں اخبار پر مرکوز کر لیں تھیں۔
’’جی ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ قریب پڑی خالی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
’’تیار نہیں ہوئے جانے کے لئے؟‘‘
’’نہیں آج نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔۔؟‘‘
’’ویسے ہی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بے ساختہ ہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری تھی۔
’’تم ویسے ہی تو کبھی چھٹی نہیں کرتے۔‘‘ اس نے انہیں کہتے سنا تھا اور پھر اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔ اسے رات ان دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو یاد آگئی تھی۔
’’بس نانا جان !آج ذرا سستی ہو رہی ہے ویسے بھی بہت عرصے سے چھٹی نہیں کی۔‘‘
’’رات نیند پوری نہیں ہوئی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر پایا تھا۔ کتنے ہی لمحے خاموشی سے سرک گئے ۔
’’رات کو دیر سے آئے تھے یا پھر سوئے دیر سے تھے؟‘‘ اس نے حیرت سے ان کی چہرے کی جانب دیکھا تھا وہ پرسکون انداز میں اخبار پڑھ رہے تھے۔
’’دیر سے آیا تھا۔‘‘
’’دیر سے آنے کا کیا مطلب؟‘‘ ان کے کہے جملے نے ایک مرتبہ پھراس کی حیرت میں اضافہ کیا تھا۔
’’کھانا کھایا تھا؟‘‘
یہ جملہ مزید حیرت میں اضافہ کر گیا تھا لیکن اس مرتبہ اس نے جواب نہیں دیا تھا۔ بس سر جھکا گیا ’’تیمور۔‘‘ اب کے انہوں نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
’’کھانا کھایا تھا؟‘‘ وہ ایک مرتبہ پھر اس سے پوچھ رہے تھے۔ جواب میں اس نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا تھا۔ پھر کچھ بولنے کے لئے لب وا کئے تھے کہ وقارعلی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
’’عائشہ !نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک سا گیا۔ پھر گہری سانس لے کر اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ گویا وہ اس کی الجھن سمجھ گئے تھے۔ لیکن اس الجھن کے حل ہوتے ہی ایک نئی الجھن نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔
’’آج اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آرام سے بات کرنا اس سے۔۔۔ کبھی کبھی تم اسے بہت تنگ کرتے ہو۔‘‘ پتہ نہیں وہ اسے بتا رہے تھے یا پھر تنبیہہ کر رہے تھے۔
’’کہاں ہے؟ ۔۔۔ اپنے کمرے میں۔‘‘
’’نہیں کچن میں ہوگی چائے بنانے بھیجا تھا اسے ۔۔۔ تم نے بھی کچھ کھانا ہے تو اسے
…to be continued
Categories:
Uncategorized Tags:
’’نہیں ۔۔۔۔ کافی پےؤں گا۔‘‘ اس نے ساس پین میں کافی کے لیے دودھ گرم ہونے کے لئے چولہے پر رکھتے ہوئے ایک نظر کچن کے دروازے سے نظر آتے ڈائننگ ٹیبل پر اسے کرسی کھسکاکر بیٹھتے دیکھا تھا اس نے نظریں واپس کام کی جانب موڑ لیں۔ وہ ٹرے میں سالن روٹی اور کافی بھرا مگ رکھے باہر آئی کہ اسے ڈائننگ ٹیبل پر ہتھیلی پر تھوڑی جمائے کچھ سوچتے دیکھا تھا۔ وہ ٹرے اس کی جانب رکھ کر پلٹنے لگی تھی کہ وہ بولا۔
’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ اس نے ہمیشہ کی طرح انکار نہیں کے اتھا اور خاموشی سے ایک کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی تھی۔
’’تم نے کھانا کھایا ہے؟‘‘ جواب میں اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
وہ سر جھکا کر کھانے میں مصروف ہو گیا تھا۔ کھانے کے دوران اس نے کوئی بات نہیں کی۔ اس کے کھانا ختم کر تے ہی وہ ٹرے میں خالی برتن رکھے کچن میں چلی آئی تھی۔ برتن دھو کر ریک میں رکھ کر وہ واپس آئی تو وہ بولا۔
’’بیٹھو۔‘‘کافی کا سپ لیتے ہوئے اس نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔ وہ خاموشی سے ایک مرتبہ پھر سر جھکاکر بیٹھ گئی۔
’’میں نے تم سے کچھ پوچھاتھا۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔؟‘‘ وہ جان کر انجان بن گئی۔
’’کسی نے کچھ کہا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘اس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
’’تو پھر۔۔۔۔؟‘‘اب بھی اس کی سوالیہ نگاہیں اس کے چہرے پر گڑی ہوئیں تھیں۔
’’تیمور !میں نے کہا نا ویسے ہی۔‘‘ ایک دم ہی وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
’’تم ویسے ہی اس طرح نہیں روتیں۔‘‘ وہ کافی کا سپ لیتے ہوئے پر سکون انداز میں بولا۔
’’میں سچ کہہ رہی ہوں۔‘‘اس نے تیمور کی جانب دیکھا تھا اور اگلے لمحے وہ اپنی نظریں جھکا گئی۔ وہ زیادہ دیر اس سے نظریں نہیں ملا پائی تھی۔
’’تم کہتی ہو تو میں مان لیتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تم جھوٹ بول رہی ہو۔‘‘ اب اس نے تیمور کو لاپرواہی سے کندھے اچکا کر مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے دیکھا۔
’’میں سونے جا رہی ہوں تم اپنے کمرے میں جانے لگو تو لائٹ آف کر کے جانا۔‘‘اس نے کہا۔
’’آج اپنی چاکلیٹ نہیں لو گی؟‘‘ کمرے سے نکلتے نکلتے وہ اس کی آواز پر مڑی تھی۔ وہ اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں چاکلیٹ تھی۔ وہ آگے بڑھا کر ان اس نے چاکلیٹ پکڑ لی اور آہستگی سے مڑگئی تھی۔
اس کے کمرے سے نکلتے ہی ایک گہری سانس لے کر وہ بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔
(***)
اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھتے ہی اس نے ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹ پر نظر ڈالی تھی۔
ہاں آج اسے چاکلیٹ لینا بھی یاد نہیں رہا تھا۔ بلکہ آج تو اسے کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا۔
ہر کام وہ الٹ کر رہی تھی حتیٰ کہ اس کے قدم بھی رکھتی کہیں تھی اور پڑتے کہیں تھے۔
نہیں ایسا تو ہمیشہ سے ہو رہا ہے۔ کئی سالوں سے وہ زندگی میں ہر لمحہ اٹھتے قدم بھی ٹھیک طرح سے جما نہیں پاتی تھی کہ اگلا اٹھتا قدم پہلے قدم کو بھی کمزور کر دیتا تھا۔ کتنے سالوں سے یہی ہو رہاتھا۔ اس نے اپنی انگلیوں کی پوروں پر گننے کی کوشش کی تھی مگر پھر اس کی گنتی رک گئی تھی۔
’’نہیں ۔۔۔میں اس وقت سوچنا نہیں چاہتی۔ بس وہ ماضی تھا گزر گیا۔ کیا میں اس گزر ماضی کے لئے اپنے حال کو خراب کروں۔ ویسے بھی اس وقت میں سونا چاہتی ہوں۔ ایک پرسکون نیند لینا چاہتی ہوں۔‘‘ یہ سوچتے ہی اس نے چاکلیٹ کا ریپر کھولا۔ لیکن وہ ایک مرتبہ پھر خود کو سوچنے سے روک نہیں پیائی تھی۔ وہ چند لمحے پہلے کے واقعات سوچتے ہوئے ہے ساختہ ہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری تھی۔
’’کتنا حیران ہو رہا تھا۔‘‘ وہ یہ سوچتے ہوئے لیٹ گئی تھی۔
’’ابھی اسے کچھ نہیں پتہ تبھی وہ پر سکون ہے۔ میں پریشان ہوں کہ مجھے پتہ ہے۔ وہ محض میری حالت دیکھ کر پریشان ہوا ہے۔جب اسے پتہ چلے گا تو وہ بھی پریشان ہو گا اور ۔۔۔۔ اورکیا میں اس کو پریشان دیکھ کر حیران ہونگی۔ کیا اس کا خلاف معمول کام کرنا مجھے حیران کرئے گا۔‘‘ چادر کھول کر ٹانگوں پر پھیلاتے ہوئے اس نے جیسے خود سے سوال کیا تھا۔ اور پھر جیسے گہری سانس لے کر وہ لیٹ گئی تھی۔ سینے تک چادر کھینچتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کرتے سوچا تھا۔
’’نہیں ۔۔۔۔ اس لئے ۔۔۔۔اس لئے کہ مجھے ابھی سے علم ہے۔‘‘ چند لمحے سکت لیٹنے کے بعد اس نے ہاتھ بڑھا کر بیڈ کے قریب دیوار کے ساتھ لگے سوچ بورڈ پر ہاتھ رکھا تھا۔ کمرے میں اندھیرا چھا گیا تھا۔
…to be continued
Categories:
Uncategorized Tags:
یہیں آ کے رکنے تھے قافلے
’’نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘صحن میں ستون سے ٹیک لگائے اس نے یہ سوچتے ہوئے سر اُٹھا کر آسمان کی تاریکیوں میں کچھ دیکھنے کی کوشش کی تھی۔’’کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘ اسے اپنے دل سے آواز آتی سنائی دی۔’’ہاں واقعی کیا کچھ نہیں ہو سکتا اور کیا نہیں ہوا؟ کیا کر پائے کچھ بھی تو نہیں۔‘‘بالآخر اس کے ذہن نے بھی دل کی سوچ پر ہار مان کی تھی۔ کتنی ہی دیر وہ پلکیں بند کئے ساکت کھڑی رہی کہ رات کے پرسکون ماحول میں ایک آواز نے ارتعاش پیدا کیا تھا۔ بس یہ ارتعاش لمحے بھر کا تھا۔ اسے لگا تھا کہ جیسے کوئی چیز گری ہو۔ یک لخت ہی اس نے آنکھیں کھولیں تھیں۔ اسے اپنے جسم میں لمحہ بھر کو حرکت محسوس ہوئی تھی۔ ایک لمحے کے لئے ایک انجانے خوف نے اس کے جسم کو اپنی لپیٹ میں لیا اور پھر اس نے خود کو ایک مرتبہ پھر اپنی جگہ پر ساکت پایا تھا۔ آدھی رات کی تاریکی سارے صحن پر قبضہ جمائے ہوئے تھی۔ اس کی نظریں سامنے جم گئیں تھیں۔ وہ جو کوئی بھی تھا اب زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ یقینااس نے دیوار سے چھلانگ لگائی تھی۔ اس نے اب ہیولے کو اپنی جگہ کھڑے ہوتے دیکھا تھا۔اس نے ایک گہری نظر اندھیرے میں نظر آنے والے وجود پر ڈالی تھی اور پھر سے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔’’کیا اس نے مجھے دیکھ لیا ہو گا؟‘‘ اس نے سوچا تھا اگلے لمحے اسے اپنے وجود کے کہیں اندر سے آواز آئی تھی۔’’کیوں نہیں جب میں نے اندھیرے میں اسے دیکھ لیا تو وہ زیرو پاور کے بلب کی روشنی میں مجھے اب تک نہ سیکھ پایا ہوگا۔‘‘’’کیا مین گیٹ پر کوئی بلب نہیں؟‘‘ کتنے ہی سالوں میں پہلی مرتبہ اس نے اسبارے میں سوچا تھا۔ بلکہ اس نے اس بات کی ضرورت محسوس کی تھی۔مین گیٹ میں بنے پلر پر بلب ہولڈر تو ہے لیکن کبھی بلب جلتے نہیں دیکھا۔ ہاں میں صبح ہی چھوٹے چچا سے کہہ کر بلب لگواؤں گی۔بند آنکھوں سے سوچتے ہوئے اس کے کانوں میں قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ چاپ کی آواز اسے قدم قدم قریب سنائی دے رہی تھی اور پھر۔۔۔۔ پھر تھم گئی تھی۔’’ہاں وہ رک گیا ہے اور اب۔۔۔ اب ہمیشہ کی طرح وہ اس پر بگڑے گا۔ اس کے اس طرح صحن میں اپنے انتظار میں کھڑا دیکھ کر غصے میں آئے گا۔‘‘ اور اس کا اندازہ درست نکلا تھا وہ بولا تھا لیکن جو جملہ اس کی زبان سے ادا ہوا تو اسے سن کر وہ یک لخت ہی آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی تھی۔ کتنے ہی لمحے وہ حیرت سے نظریں اس کے چہرے پر ٹکائے رہی۔’’میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے؟‘‘’’ہا ۔۔۔۔ ہاں۔‘‘ چونکتے ہوئے وہ بے اختیار ہی اپنا دائیاں ہاتھ چہرے تک لے گئی تھی۔ گال کو چھوتے ہی اس نے انگلیوں میں نمی محسوس کی تھی۔’’پتہ نہیں۔‘‘ اگلے ہی لمحے وہ یہ کہتے ہوئے مڑی تھی اور اندر کی جانب بڑھی تھی۔ اس نے ہمیشہ کی طرح مڑکر یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ اس کے پیچھے آرہا ہے یا نہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر بڑھتی چلی گئی۔ اور پھر نامحسوس انداز میں وہ اپنی جگہ پر ٹھہر گئی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اسے اپنے پیچھے دروازہ لاک کرنے کی آواز سنائی نہیں دی تھی۔ وہ پلٹی تھی۔ اس کا خیال ٹھیک تھا۔ وہ اس کے پیچھے موجود نہیں تھا۔ وہ دروازے کی جانب بڑھی تھی اور دروازے کے درمیان رک کرصحن میں نگاہ ڈالی تھی۔ وہ ابھی تک وہیں کھڑا تھا اور اس کی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔’’آ بھی جاؤ اس طرح کیوں کھڑے ہو؟‘‘اتنا کہہ کر وہ ایک مرتبہ پھر پلٹی اس کے قدم کچن کی جانب بڑھ رہے تھے لیکن اس کے کان پیچھے آنے والی آوازوں پر لگے ہوئے تھے۔ دروازہ لاک ہونے کی آواز کے ساتھ ہی اس نے مطمئن ہو کر قدم بڑھائے تھے۔ کچن میں پہنچ کر اس نے برنر آن کیا اور توا اس پر رکھ کر وہ سلیب پر پڑے ہاٹ پاٹ کی جانب بڑھی۔ ڈھکن اٹھا کر روٹی نکالی تھی کہ اسے اپنے پیچھے آواز سنائی دی۔ ’’کیا سب سو رہے ہیں؟‘‘’’آدھی رات کو جاگنے کی کیا تک بنتی ہے؟‘‘ تقریباً روز کیے جانے والے ایک ہی سوال پر وہ ہمیشہ کی طرح ایک ہی جواب میں دہرائے جانے والے جملے کو الفاظ کا روپ نہ دے پائی تھی بس سوچ کررہ گئی تھی۔’’ہاں سب سو رہے ہیں۔‘‘ اس کے غیر متوقع جواب پر اس نے حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔’’چائے پےؤ گے؟‘‘ نجانے وہ کتنی دیر اسے دیکھتارہتا کہ اس کی آواز پر وہ دروازے پر سے ہی پلٹ گیا۔…..to be continued
یہیں آ کے رکنے تھے قافلے
مریم ماہِ منیر…مصنفہ
نوٹ؛
اس کتاب کے جملہ حقوق بحق مصنفہ محفوظ ہیں۔
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ مصنفہ کی تحریری اجازت کے بغیر کہیں بھی شائع نہیں کیا جا سکتا۔اگر اس قسم کی صورت حال ظہور پزیر ہوتی ہے تو قانونی کاروائی کا حق محفوظ ہے۔اس کتاب کے تمام کردار فرضی ہیں۔اور اس کتا ب کے کسی بھی حصہ کو بطور سندکسی بھی عدالتی کاروائی میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
Categories:
Uncategorized Tags:
میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا
ساتھ میرے روشنی بن کر سفر اس نے کیا
اس طرح کھینچی ہے میرے گرد دیوار خبر
سارے دشمن روزنوں کو بے نظر اس نے کیا
مجھ میں بستے سارے سناٹوں کی لے اس سے بنی
پتھروں کے درمیاں تھی نغمہ گر اس نے کیا
بے سر و ساماں پہ دل داری کی چادر ڈال دی
بے در و دیوار تھی میں مجھ کو گھر اس نے کیا
پانیوں میں یہ بھی پانی ایک دن تحلیل تھا
قطرۂ بے صرفہ کو لیکن گہر اس نے کیا
ایک معمولی سی اچھائی تراشی ہے بہت
اور فکر خام سے صرف نظر اس نے کیا
پھر تو امکانات پھولوں کی طرح کھلتے گئے
ایک ننھے سے شگوفے کو شجر اس نے کیا
طاق میں رکھے دیے کو پیار سے روشن کیا
اس دیے کو پھر چراغ رہ گزر اس نے کیا
جاؤ قرار بے دلاں شام بخیر شب بخیر
صحن ہوا دھواں دھواں شام بخیر شب بخیر
شام وصال ہے قریب صبح کمال ہے قریب
پھر نہ رہیں گے سرگراں شام بخیر شب بخیر
وجد کرے گی زندگی جسم بہ جسم جاں بہ جاں
جسم بہ جسم جاں بہ جاں شام بخیر شب بخیر
اے مرے شوق کی امنگ میرے شباب کی ترنگ
تجھ پہ شفق کا سائباں شام بخیر شب بخیر
تو مری شاعری میں ہے رنگ طراز و گل فشاں
تیری بہار بے خزاں شام بخیر شب بخیر
تیرا خیال خواب خواب خلوت جاں کی آب و تاب
جسم جمیل و نوجواں شام بخیر شب بخیر
ہے مرا نام ارجمند تیرا حصار سر بلند
بانو شہر جسم و جاں شام بخیر شب بخیر
دید سے جان دید تک دل سے رخ امید تک
کوئی نہیں ہے درمیاں شام بخیر شب بخیر
ہو گئی دیر جاؤ تم مجھ کو گلے لگاؤ تم
تو مری جاں ہے میری جاں شام بخیر شب بخیر
شام بخیر شب بخیر موج شمیم پیرہن
تیری مہک رہے گی یاں شام بخیر شب بخیر
کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف
خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر میرے خلاف
تڑپ رہا ہے فلاطوں میان غیب و حضور
ازل سے اہل خرد کا مقام ہے اعراف
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازیؔ نہ صاحب کشافؔ
سرور و سوز میں ناپائیدار ہے ورنہ
مے فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہیں ناصاف
Get an online weight loss buddy to lose more weight
A University of Vermont study found that online weight-loss buddies help you keep the weight off. The researchers followed volunteers for 18 months. Those assigned to an Internet-based weight maintenance program sustained their weight loss better than those who met face-to-face in a support group. You and your weight loss buddy can share tips like these ways to lose weight without exercise.
Add 10 percent to the amount of daily calories you think you’re eating
If you think you’re consuming 2000 calories a day and don’t understand why you’re not losing weight, add another 200 calories to your guesstimate. Chances are, the new number is more accurate. Adjust your eating habits accordingly. For instance, your cup of coffee might have more calories than you thought.
وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا
ہنستا ہے مجھے دیکھ کے نفرت نہیں کرتا
پکڑا ہی گیا ہوں تو مجھے دار پہ کھینچو
سچا ہوں مگر اپنی وکالت نہیں کرتا
کیوں بخش دیا مجھ سے گنہ گار کو مولا
منصف تو کسی سے بھی رعایت نہیں کرتا
گھر والوں کو غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں
چوروں کو مگر کوئی ملامت نہیں کرتا
کس قوم کے دل میں نہیں جذبات براہیم
کس ملک پہ نمرود حکومت نہیں کرتا
دیتے ہیں اجالے مرے سجدوں کی گواہی
میں چھپ کے اندھیرے میں عبادت نہیں کرتا
بھولا نہیں میں آج بھی آداب جوانی
میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا
انسان یہ سمجھیں کہ یہاں دفن خدا ہے
میں ایسے مزاروں کی زیارت نہیں کرتا
دنیا میں قتیلؔ اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
Syed lmtiaz Ali Taj is a Pakistani prose and drama writer. He was born in Lahore. After his education, he was able to partake in his father’s publishing institution, Dar-ul-Ishaat Punjab.
During his college days he showed his literary qualities by translating and directing several English plays, and then staging them for the college. He sometimes played female roles as girls in his times were not allowed to act.
His earliest involvement with publications began with ‘Phool’, a children’s periodical and ‘Tahzeeb-e-Niswan’ for women readership.
In 1918 he began the literary magazine called ‘Kehkashan’ in collaboration with his friend, Maulana Abdul Majeed Salik. In Phool he had the assistance of the famous short story writer Ghulam Abbas Ahmed as well as young Ahmed Nadeem Oasmi.
He translated into Urdu Shakespeare’s play ‘A Mid Summer Nights Dream’ and entitled it in ‘Sawan Rain ka sapna’. In 1922 he wrote ‘Anarkali’, which became a landmark in Urdu drama writing. This was later adapted into feature films in India and Pakistan.
In 1926 he wrote a play ‘Chacha Chhakan’ which was similar to the famous characters ‘Uncle Podger’ of the English dramatist Jerome, Chacha Chhakan remains until today the most humorous character in the Urdu literature.
Apart from criticism on drama, he also wrote radio plays, novels, short stories and several film stories, some of them directed by him. As the Director of ‘Majlis’ he republished many critical works of Urdu literature.
After the establishment of Pakistan, Syed lmtiaz Ali Taj conducted a daily feature ‘Pakistan Hamara Hai’ for Radio Pakistan. It was no doubt a popular programme.
On 19th April, 1970 while he was asleep, he was shot dead by some unknown persons. His wife Hijab lmtiaz Ali was seriously wounded.
Literature has a history which is famous due to his dominating power in writing like poetry, gazal, afsana, novel, nazam, short story. It is the national language of Pakistani Urdu is popular a lot of in India and almost used in Afghanistan.
Urdu holds a lots of material on Islamic literature and Sharia.Pakistani and Indian Christian often used Roman script for Urdu writing. Urdu have a vocabulary rich in words.The importance of Urdu is visible in religious world.
Famous Urdu personalities are achieve popularity due to their fantastic abilities writing in Urdu like Mira-al-urus, bani-tun-nash, Zindagi, tau-bat-u-Nashua, Sanaa-e-subtotal. It become embued many word from the regional language of Pakistan.there are many stat language Pakistan like as Punjabi, Ashton, postwar, hind, Harri, Shari, Baltic, we translate all these languages in Urdu. A most of newspapers are publish in Urdu like daily jang etc.
Urdu Novels
Categories:
Uncategorized Tags:
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح
ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح
وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح
ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
A B C D E F G H I J K L M N O P Q R S T ( ) V W X Y Z.
Did I miss any letter?
No..No.
I have put (U) safely in my HEART as a sweet friend.
Categories:
Uncategorized Tags: