YAHEEN AA KAA RUKNAA THAA QAFLAA..2nd..episode

’’نہیں ۔۔۔۔ کافی پےؤں گا۔‘‘ اس نے ساس پین میں کافی کے لیے دودھ گرم ہونے کے لئے چولہے پر رکھتے ہوئے ایک نظر کچن کے دروازے سے نظر آتے ڈائننگ ٹیبل پر اسے کرسی کھسکاکر بیٹھتے دیکھا تھا اس نے نظریں واپس کام کی جانب موڑ لیں۔ وہ ٹرے میں سالن روٹی اور کافی بھرا مگ رکھے باہر آئی کہ اسے ڈائننگ ٹیبل پر ہتھیلی پر تھوڑی جمائے کچھ سوچتے دیکھا تھا۔ وہ ٹرے اس کی جانب رکھ کر پلٹنے لگی تھی کہ وہ بولا۔
’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ اس نے ہمیشہ کی طرح انکار نہیں کے اتھا اور خاموشی سے ایک کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی تھی۔
’’تم نے کھانا کھایا ہے؟‘‘ جواب میں اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
وہ سر جھکا کر کھانے میں مصروف ہو گیا تھا۔ کھانے کے دوران اس نے کوئی بات نہیں کی۔ اس کے کھانا ختم کر تے ہی وہ ٹرے میں خالی برتن رکھے کچن میں چلی آئی تھی۔ برتن دھو کر ریک میں رکھ کر وہ واپس آئی تو وہ بولا۔
’’بیٹھو۔‘‘کافی کا سپ لیتے ہوئے اس نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔ وہ خاموشی سے ایک مرتبہ پھر سر جھکاکر بیٹھ گئی۔
’’میں نے تم سے کچھ پوچھاتھا۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔؟‘‘ وہ جان کر انجان بن گئی۔
’’کسی نے کچھ کہا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘اس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
’’تو پھر۔۔۔۔؟‘‘اب بھی اس کی سوالیہ نگاہیں اس کے چہرے پر گڑی ہوئیں تھیں۔
’’تیمور !میں نے کہا نا ویسے ہی۔‘‘ ایک دم ہی وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
’’تم ویسے ہی اس طرح نہیں روتیں۔‘‘ وہ کافی کا سپ لیتے ہوئے پر سکون انداز میں بولا۔
’’میں سچ کہہ رہی ہوں۔‘‘اس نے تیمور کی جانب دیکھا تھا اور اگلے لمحے وہ اپنی نظریں جھکا گئی۔ وہ زیادہ دیر اس سے نظریں نہیں ملا پائی تھی۔
’’تم کہتی ہو تو میں مان لیتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تم جھوٹ بول رہی ہو۔‘‘ اب اس نے تیمور کو لاپرواہی سے کندھے اچکا کر مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے دیکھا۔
’’میں سونے جا رہی ہوں تم اپنے کمرے میں جانے لگو تو لائٹ آف کر کے جانا۔‘‘اس نے کہا۔
’’آج اپنی چاکلیٹ نہیں لو گی؟‘‘ کمرے سے نکلتے نکلتے وہ اس کی آواز پر مڑی تھی۔ وہ اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں چاکلیٹ تھی۔ وہ آگے بڑھا کر ان اس نے چاکلیٹ پکڑ لی اور آہستگی سے مڑگئی تھی۔
اس کے کمرے سے نکلتے ہی ایک گہری سانس لے کر وہ بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔
(***)
اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھتے ہی اس نے ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹ پر نظر ڈالی تھی۔
ہاں آج اسے چاکلیٹ لینا بھی یاد نہیں رہا تھا۔ بلکہ آج تو اسے کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا۔
ہر کام وہ الٹ کر رہی تھی حتیٰ کہ اس کے قدم بھی رکھتی کہیں تھی اور پڑتے کہیں تھے۔
نہیں ایسا تو ہمیشہ سے ہو رہا ہے۔ کئی سالوں سے وہ زندگی میں ہر لمحہ اٹھتے قدم بھی ٹھیک طرح سے جما نہیں پاتی تھی کہ اگلا اٹھتا قدم پہلے قدم کو بھی کمزور کر دیتا تھا۔ کتنے سالوں سے یہی ہو رہاتھا۔ اس نے اپنی انگلیوں کی پوروں پر گننے کی کوشش کی تھی مگر پھر اس کی گنتی رک گئی تھی۔
’’نہیں ۔۔۔میں اس وقت سوچنا نہیں چاہتی۔ بس وہ ماضی تھا گزر گیا۔ کیا میں اس گزر ماضی کے لئے اپنے حال کو خراب کروں۔ ویسے بھی اس وقت میں سونا چاہتی ہوں۔ ایک پرسکون نیند لینا چاہتی ہوں۔‘‘ یہ سوچتے ہی اس نے چاکلیٹ کا ریپر کھولا۔ لیکن وہ ایک مرتبہ پھر خود کو سوچنے سے روک نہیں پیائی تھی۔ وہ چند لمحے پہلے کے واقعات سوچتے ہوئے ہے ساختہ ہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری تھی۔
’’کتنا حیران ہو رہا تھا۔‘‘ وہ یہ سوچتے ہوئے لیٹ گئی تھی۔
’’ابھی اسے کچھ نہیں پتہ تبھی وہ پر سکون ہے۔ میں پریشان ہوں کہ مجھے پتہ ہے۔ وہ محض میری حالت دیکھ کر پریشان ہوا ہے۔جب اسے پتہ چلے گا تو وہ بھی پریشان ہو گا اور ۔۔۔۔ اورکیا میں اس کو پریشان دیکھ کر حیران ہونگی۔ کیا اس کا خلاف معمول کام کرنا مجھے حیران کرئے گا۔‘‘ چادر کھول کر ٹانگوں پر پھیلاتے ہوئے اس نے جیسے خود سے سوال کیا تھا۔ اور پھر جیسے گہری سانس لے کر وہ لیٹ گئی تھی۔ سینے تک چادر کھینچتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کرتے سوچا تھا۔
’’نہیں ۔۔۔۔ اس لئے ۔۔۔۔اس لئے کہ مجھے ابھی سے علم ہے۔‘‘ چند لمحے سکت لیٹنے کے بعد اس نے ہاتھ بڑھا کر بیڈ کے قریب دیوار کے ساتھ لگے سوچ بورڈ پر ہاتھ رکھا تھا۔ کمرے میں اندھیرا چھا گیا تھا۔
…to be continued