YAHEEN AA KAA RUKNAA THAA QAFLAA.5…episode

’’آپ چائے پی لیں؟‘‘ اس نے ان کا دھیان بدلنے کی خاطر کہا تھا۔
’’ہاں بھائی اب صبح ہی صبح کڑوی کسیلی چائے حلق سے اتارو۔ پہلے ہی زندگی کی تلخیاں کچھ کم ہیں جو چائے کو مزید ان کا حصہ بنایا جائے۔‘‘ جواب میں وہ خاموش رہی تھی کہ یہ ان سے بچنے کی راہ تھی۔ اس نے کچن میں گھسنا چاہا تھاکہ اسے اپنے پیچھے آواز سنائی دی تھی۔
’’ذرا ایک گلاس سیبوں کا جوس نکال کر کمرے میں دے دینا۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘ آہستگی سے سر جھٹکتے ہوئے وہ بولی۔
’’اور ہاں عائشہ تم خود بھی ضرور پینا چہرے کی سکن فریش رہتی ہے۔‘‘ اس نے انہیں کہتے سنا۔
’’جی آپ کی skinسے پتہ چل رہا ہے۔‘‘ وہ بس سوچ کر رہ گئی تھی۔
’’سنو عائشہ!‘‘ وہ اب کمرے میں جانے کی بجائے کچن کے دروازے میں آن کھڑی ہوئی تھیں۔
’’جی چچی۔‘‘
’’یہ میری سکن آج کل کچھ خراب نہیں ہونے لگی۔‘‘ پتہ نہیں وہ اسے بتا رہی تھیں یا پھر پوچھ رہی تھیں۔ ابھی وہ اسی خیال میں تھی کہ ایک مرتبہ اسے پھر سے ان کی آواز آئی۔
’’تمہیں کیسا لگتا ہے؟‘‘ اس نے سیب کاٹتے ہوئے ان کے چہرے پر نظر ڈالی تھی۔
’’مجھے تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا ہمیشہ کی طرح ہی تو ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نظریں جھکا کر پھر سے سیب کاٹنے لگی تھی۔ لیکن نظر جھکاتے جھکاتے بھی وہ چچی کے چہرے پر پھیلتی الجھن دیکھ چکی تھی۔
ہاں اس کا جواب بھی تو ایسا تھا کہ پتہ ہی نہ چل سکے کہ تعریف کی گئی ہے یا پھر ۔۔۔ چلو چچی کی صحبت کا ایک اثر تو ہو کہ بات گھما پھرا کر کرنے کا ڈھنگ آگیا۔ نہیں تو وہ تو صاف سیدھی بات منہ پر کہنے کی عادی تھی اور اب بھی کئی مرتبہ اس کے منہ سے صحیح بات نکل جاتی ہے کہ فطرت کو بدلا تو نہیں جا سکتا۔ ہاں البتہ اس میں تھوڑی لچک پیدا کی جاسکتی ہے لیکن بہرحال وہ فرزانہ چچی کے معاملے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیتی تھی۔
’’چچی! آپ تو ایسے ہی پریشان ہو رہی ہیں بہت اچھی سکن ہے آپ کی۔‘‘ اس نے ایک مرتبہ پھر diplomacy سے کام لے کر چچی کو الجھن سے نکالا تھا۔
’’ ہاں میرا بھی یہی خیال تھا پھر میں facialاور maskبھی تو باقاعدگی سے کرتی ہوں۔ اتنی کےئر پر بھی سکن اچھی نہ نظر آئے گی‘‘ پتہ نہیں وہ خود کلام تھی کہ اسے سنا رہی تھیں۔
اس نے ایک نظر پھر ان کے سانولے چہرے پر ڈالی تھی۔ جہاں freshnessکا نام ونشان تک نہیں تھا۔
’’اگر ایسی کےئر چھوڑ دیں تو ان کی Skinبہتر نظر آنے لگے۔‘‘ وہ سوچ کر رہ گئی۔
’’اچھا میں جا رہی ہوں پانچ منٹ میں جوس لے آنا۔‘‘ یکدم ہی ان کا پہلا لہجہ دوبارہ در آیا تھا۔ کام جو پورا ہو گیا تھا۔
’’کاش میں بھی فرزانہ چچی جیسی ڈپلومیسی کو اپنا روزمرہ کا معمول بنا سکوں۔ ‘‘ یہ سوچتے ہوئے اس نے جیوسر کا ڈھکن بند کر کے سوئچ آن کر دیا تھا۔ وہ فرزانہ چچی کو جوس دے کر ان کے
کمرے کا دروازہ بند کر رہی تھی کہ اسے طاہرہ بیگم کا خیال آیا۔ وہ ٹرے رکھنے کچن میں چلی آئی تھی لیکن کچن میں سلیب کے قریب کھڑے اپنی جانب سے پشت کئے وجود پر نظر پڑتے ہی وہ تیزی سے واپس مڑی تھی۔
’’کیسی ہو عائشہ؟‘‘
’’جی ٹھیک ہوں؟‘‘ مختصر الفاظ میں اس نے جواب دیا۔
’’ناشتہ کیا ہے یا بنادوں؟‘‘
’’ نہیں دل نہیں کر رہا۔‘‘ بے دلی سے اس نے جواب دیا۔
’’ دل کر رہا ہے یا نہیں لیکن میں تو بتا چکی ہوں تیمور کے لئے پراٹھا بنایا تو ساتھ تمہارے لئے بھی بنا لیا۔‘‘
’’لیکن ابھی تو آپ نے پوچھا تھا۔‘‘
’’وہ اس لئے کہ مجھے معلوم تھا کہ تم۔‘‘ اس نے کہنا چاہا کہ وہ اس کی بات ٹوکتے ہوئے بولیں۔ وہ مڑی تھیں اور اس پر نظر پڑتے ہی ٹھٹھک گئیں تھیں۔
’’عائشہ!‘‘
’’ جی آپ کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ وہ قصداً مسکرائی تھی۔
’’عائشہ ۔۔۔کیا ہوا بیٹا؟ تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ اپنے لہجے میں تشویش لئے اس نے انہیں اپنے قریب آتے دیکھا۔
’’ جی مجھے کیا ہو نا ہے ایک دم ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے اپنے ہونٹوں کو مزید پھیلا کر لہجہ خوشگوار بنانے کی کوشش کی۔
’’پھر جھگڑا ہوا ہے تیمور سے؟‘‘ اپنے لہجے میں تشویش لئے اس نے انہیں اپنے قریب آتے دیکھا۔
’’نہیں آپ کو پتہ تو ہے میں نے کبھی جھگڑا کیا ہے؟‘‘ ایک مرتبہ پھر اس نے مسکرانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہی تھی۔
’’میں ابھی پوچھتی ہوں حد ہوتی ہے کسی بات کی۔‘‘ اس کی آنکھوں میں اُمڈتا پانی دیکھ کر انہیں جیسے اپنے کہے کی تصدیق ہو گئی تھی۔
’’نہیں پھپھو !میں سچ کہہ رہی ہوں تیمور نے کچھ نہیں کہا۔‘‘
’’تو پھر ۔۔۔ اباجان نے ڈانٹا ہے؟‘‘
’’انہوں نے تو کبھی ڈانٹا ہی نہیں۔‘‘
’’کہیں ۔۔۔۔ کہیں فرزانہ سے تو کھٹ پٹ نہیں ہو گئی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ یہیں تھی۔‘‘
انہوں نے ایک مرتبہ پھر سے قیاس لگانے کی کوشش کی تھی اور جواب میں اس نے کچھ کہے بغیر نفی میں سر ہلا دیا تھا۔
’’تو پھر۔۔۔۔؟‘‘
’’آپ ایسے ہی فکر کر رہی ہیں کہا نا ویسے ہی؟‘‘ اس نے گالوں پر آئے آنسو ہتھیلیوں
…to be continued