YAHEEN AA KAA RUKNAA THAA QAFLAA..4..episode

کچن میں بتا آؤ۔‘‘
’’نہیں نانا جان! ابھی تو رات کا کھانا بھی ٹھیک سے ہضم نہیں ہو پایا۔‘‘ یہ کہتے ہی اس کی نظر دروازے کی جانب اٹھی تو اس نے عائشہ کو ہاتھ میں چائے کی پیالی لئے آتے دیکھا تھا۔
اس نے قریب آکر پیالی وقار کی جانب بڑھائی تھی۔ انہوں نے اخبار اس کے ہاتھ میں دے کر پیالی اس کے ہاتھ سے پکڑلی۔ اب اس نے عائشہ کو اخبار طے کرتے دیکھا تھا۔
’’السلام علیکم۔‘‘ چند لمحے وہ ا سکی مصروفیت دیکھتا رہا پھر خود ہی بولا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ بغیر نظریں ملائے وہ بولی تھی۔ اور اسے ایک سیکنڈ لگا تھا جاننے میں اس چیز کو اس بات کو جسے وہ نظریں جھکائے چھپانے کی کوشش میں تھی۔
’’ناشتہ کرو گے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘اس نے جواب دیا۔
اور جیسے وہ ا سکے جواب کی منتظر تھی کہ اس کا جواب ملتے ہی مڑی ۔
’’نانا جی !آپ عائشہ کو منع کریں کہ وہ رات کو اس طرح باہر نہ کھڑی ہوا کرے۔‘‘
’’میں کہہ دوں گا۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔؟‘‘ بے ساختہ ہی اس کی زبان سے پھسلا تھا۔
’’یہی کہ میں رات کو باہر کھڑی نہیں ہوا کروں گی۔‘‘ اس نے عائشہ کو مڑ کر جوا ب دیتے دیکھا تھا۔
’’کیوں دادا جان۔‘‘ اب وہ وقار علی کی جانب متوجہ تھی۔ اس نے عائشہ کے لبوں پر مسکراہٹ کو ابھرتے دیکھا تھا۔
’’تم بلا وجہ ہی پریشان تھے۔ اتنی سی بات کے لئے دادا جان کو شکایت لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ تم خود ہی مجھ سے کہہ دیتے کہ تم رات میں اس طرح باہر کھڑی نہ ہوا کرو۔ بھلا اس سے کیافرق پڑتا ہے کہ میں کھڑی ہو ں یا بیٹھ جاؤں خیر میں آئندہ سے بیٹھ جایا کروں گی۔ ٹھیک اب تو کوئی شکایت نہیں مجھ سے۔‘‘ بات ختم کر کے وہ اسی جانب دیکھتے ہوئے جیسے سوالیہ اندازمیں پوچھ رہی تھی اور کچھ دیر بعد وہ مڑ کر اندر چلی گئی تھی۔
چند لمحے تو وہ سمجھ ہی نہیں پایا تھا۔ لیکن جونہی سمجھ میں اس کی کہی بات آئی تو جیسے اس نے الجھ کر وقار علی کی جانب دیکھا تھا جو کہ کپ ہونٹوں سے لگائے یقیناًاپنی مسکراہٹ چھپانے کی کوشش میں تھے۔
’’نانا جان! آپ اسے کیوں نہیں سمجھاتے۔‘‘
’’وہ نہیں مانتی۔‘‘
’’نہیں مانتی۔۔۔۔ آپ کی بات نہیں مانے گی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ بھی تو اسے پیار سے کہتے ہیں ایک مرتبہ ڈانٹ کر تو کہیں تو دیکھتا ہوں کہ کیسے نہیں مانتی وہ۔‘‘ اس نے جیسے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔
’’اس کا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ پرسکون لہجے میں جواب آیا تھا۔
’’جی کس بارے میں؟‘‘ اپنی بات کے جواب میں وہ وقار علی کی زبان سے ادا ہوئے
جملے کو سن کر بولا۔
’’وہ بھی یہی کہتی ہے کہ اگر میں تمہیں ایک مرتبہ ڈانٹ کر رات گھر جلدی آنے کا کہوں تو تم بھی میری بات سے انکار نہیں کروگے۔‘‘
’’ناناجان! آج کل حالات ٹھیک نہیں ہیں۔‘‘ وہ پھر زچ ہوا تھا۔
’’میں اس کی حمایت نہیں کر رہا۔‘‘ ان کا لہجہ ہنوز تھا۔
’’تو پھر آپ اسے کیوں نہیں کہتے جب وہ ایک غلط کام کرتی ہے۔‘‘ اب آہستہ آہستہ اس کے غصے کا گراف بڑھنے لگا تھا۔
’’جب وہ غلط کام کرے گی تو اسے ضرور کہوں گا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے تو پہلے تم مجھے بتاؤ کہ میرے کہنے کا تم پر کتنااثر ہے؟‘‘
’’آپ کوئی کام کہہ کر تو دیکھیں۔‘‘ اس نے جیسے انہیں چیلنج کیاتھا۔
’’کام نہیں بس ایک بات ہے کہ تم رات میں گھر جلدی واپس آیا کرو۔‘‘ وہ یکدم ہی خاموش ہو گیا تھا۔ پھر اس نے مزید کوئی بات نہیں کی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اب بات کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہے۔ اس نے خاموشی سے نظریں دور کیاری میں کھلے گلاب کے پودے پر جما دیں تھیں۔
(***)
وقا رعلی کے لئے چائے کا کپ ہاتھ میں لئے وہ باہر نکلی تو اسنے تیمور کو وہاں بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ ایک پل کو اس کا دل چاہا کہ وہ واپس ہو جائے۔ پتہ نہیں وہ کیوں اس کاسامنانہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ۔۔۔۔ نجانے وہ کب تک وہیں بیٹھا رہے گا اور پھر چائے۔۔۔۔؟
اس نے واپس مڑنے کے خیال کر ترک کر دیا تھا اور نظریں جھکائے وہ چلی آئی تھی۔ وقار علی کو چائے پکڑا کر وہ مڑنے لگی کہ انہوں نے اس کے ہاتھ میں اخبار پکڑا دی تھی۔ نظریں جھکائے وہ اخبار طے کر کے ایک مرتبہ پھر مڑنے لی کہ تیمور نے اسے سلام کیا تھا۔ یہ نہیں تھا کہ وہ اس سے انجان تھی یا پھر ناراض تھی ایسا کچھ بھی نہیں تھا بس وہ اس سے نظریں ملانا نہیں چاہ رہی تھی اور اس کی وجہ وہ جانتی تھی تبھی تو اس وقت تک اس نے نظریں نہیں اٹھائیں تھیں جب تک اسے یقین تھا کہ تیمور بے خبر ہے اور پھر جونہی اس نے محسوس کیا ہے کہ وہ جان چکا ہے تب بے دھڑک ہی اپنے ارد گرد کے نا معلوم حصار سے نکل آئی تھی۔ وہ تین جملوں کے اس نے جواب دئیے تھے پھر وہ اندر چلی آئی تھی۔
اندر جاتے جاتے اسے تیمور کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ دادا جان سے کچھ کہہ رہا تھا۔ اس نے رک کر سننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ جانتی تھی کہ وہ ہمیشہ کی طرح دادا جان سے کیا کہہ رہا ہو گا اور ہمیشہ کی طرح دادا جان نے کون سا جواب دے کر اسے خاموش کرایا ہوگا۔ اندر داخل ہوتے ہی فرزانہ چچی نظر آئیں تھیں۔
’’جی۔‘‘
’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھی سلائیس پر جام لگاتے ہوئے انہوں نے اسے دیکھا۔
…to be continued
.