YAHEEN AA KAA RUKNAA THAA QAFLAA..3rd..episode

کروٹ بدلتے ہی اس کی آنکھ کھلی تھی۔ آنکھیں کھولے تھوڑی دیر کے لئے وہ کمرے میں آتی روشنی سے وقت کا اندازہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر سر گھما کر سائیڈ ٹیبل پر پڑے ٹیبل پر نظر کی تھی۔ اگلے ہی پل وہ جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا تھا۔
’’اوہ ۔۔۔۔ سات بج گئے۔‘‘
وہ عموماً صبح چھ بجے تک اٹھ جایا کرتا تھا۔ ایک معمول سا بن گیا تھا کہ رات چاہے کتنی ہی دیر سے سوئے صبح مقررہ وقت پر اس کی آنکھ کھل جاتی تھی لیکن آج پتہ نہیں وہ کیوں بے خبرسورہا تھا۔ شاہد وہ رات بستر پر لیٹنے کے کافی دیر تک سو نہیں پایاتھا۔ پھر اسے یاد آیا تھا کہ جب اس کی آنکھ لگی تھی تو اس وقت اس کے کان میں اذان کی آواز آئی تھی۔ بالوں میں انگلیاں پھیر کر اس نے انہیں سلجھایا اور پھر سلیپر پہن کر غسل خانے چلا گیا تھا۔
واپس نکلا تو کپڑے تبدیل کئے ہوئے تھے۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے بالوں میں کنگھی کی اور پھر کمرے سے باہرنکل آیا تھا۔ اپنے کمرے سے تین کمرے چھوڑ کر اس نے ایک کمرے میں نظر دوڑائی تھی۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ پھر اس کی نظر باتھ روم کے دروازے کی جانب اٹھی تھی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ پھر کچھ سوچ کر چند قدم آگے جھانکا۔ اس نے

انہیں لان میں اخبار پڑھتے پایا وہ مڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا پھر اس کے قدم باہر کی جانب بڑھے تھے۔ ان کے قریب پہنچ کر اس نے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام کیسے ہو؟‘‘ایک نظر انہوں نے اخبار سے نظریں اٹھا کر اس پر ڈالیں تھیں اور پھر سر جھکا کر نظریں اخبار پر مرکوز کر لیں تھیں۔
’’جی ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ قریب پڑی خالی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
’’تیار نہیں ہوئے جانے کے لئے؟‘‘
’’نہیں آج نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔۔؟‘‘
’’ویسے ہی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بے ساختہ ہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری تھی۔
’’تم ویسے ہی تو کبھی چھٹی نہیں کرتے۔‘‘ اس نے انہیں کہتے سنا تھا اور پھر اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔ اسے رات ان دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو یاد آگئی تھی۔
’’بس نانا جان !آج ذرا سستی ہو رہی ہے ویسے بھی بہت عرصے سے چھٹی نہیں کی۔‘‘
’’رات نیند پوری نہیں ہوئی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر پایا تھا۔ کتنے ہی لمحے خاموشی سے سرک گئے ۔
’’رات کو دیر سے آئے تھے یا پھر سوئے دیر سے تھے؟‘‘ اس نے حیرت سے ان کی چہرے کی جانب دیکھا تھا وہ پرسکون انداز میں اخبار پڑھ رہے تھے۔
’’دیر سے آیا تھا۔‘‘
’’دیر سے آنے کا کیا مطلب؟‘‘ ان کے کہے جملے نے ایک مرتبہ پھراس کی حیرت میں اضافہ کیا تھا۔
’’کھانا کھایا تھا؟‘‘
یہ جملہ مزید حیرت میں اضافہ کر گیا تھا لیکن اس مرتبہ اس نے جواب نہیں دیا تھا۔ بس سر جھکا گیا ’’تیمور۔‘‘ اب کے انہوں نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
’’کھانا کھایا تھا؟‘‘ وہ ایک مرتبہ پھر اس سے پوچھ رہے تھے۔ جواب میں اس نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا تھا۔ پھر کچھ بولنے کے لئے لب وا کئے تھے کہ وقارعلی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
’’عائشہ !نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک سا گیا۔ پھر گہری سانس لے کر اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ گویا وہ اس کی الجھن سمجھ گئے تھے۔ لیکن اس الجھن کے حل ہوتے ہی ایک نئی الجھن نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔
’’آج اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آرام سے بات کرنا اس سے۔۔۔ کبھی کبھی تم اسے بہت تنگ کرتے ہو۔‘‘ پتہ نہیں وہ اسے بتا رہے تھے یا پھر تنبیہہ کر رہے تھے۔
’’کہاں ہے؟ ۔۔۔ اپنے کمرے میں۔‘‘
’’نہیں کچن میں ہوگی چائے بنانے بھیجا تھا اسے ۔۔۔ تم نے بھی کچھ کھانا ہے تو اسے
…to be continued