اتنا معلوم ہے ، خوابوں کا بھرم ٹوٹ گیا Poetess: PERVEEN SHAKIR

اپنے بستر پہ میں بہت دیر سے نیم دراز
سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہوگا
میں یہاں ہوں مگر اُس کوچہء رنگ و بو میں
روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہوگا
اور جب اُس نے وہاں مجھ کو نہ پایا ہوگا ؟
آپ کو علم ہے ، وہ آج نہیں آئی ہیں ؟
میری ہر دوست سے اُس نے یہی پوچھا ہوگا
کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہوئی ہے آخر
خود سے اس بات پہ سو بار وہ اُلجھا ہوگا
کل وہ آئے گی تو میں اُس سے نہیں بولوں گا
آپ ہی آپ کئی بار وہ روٹھا ہوگا
وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اُس نے یہ سوچا ہوگا
راہداری میں ،ہرے لان میں ، پھولوں کے قریب
اُس نے ہر سمت مجھے ڈھونڈا ہوگا
نام بھولے سے جو میرا کہیں آیا ہوگا
غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہوگا
ایک جملے کو کئی بار سُنایا ہوگا
بات کرت ہوئے سو بار وہ بھولا ہوگا
یہ جو لڑکی نئی آئی ہے ، کہیں وہ تو نہیں
اُس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہوگا
جانِ محفل ہے ، مگر آج فقط میرے بغیر
ہائے کس درجہ بھری بزم میں تنہا ہوگا
کبھی سنّاٹوں سے وحشت جو ہوئی ہوگی اُسے
اُس نے بے ساختہ پھر مجھ کو پکارا ہوگا
چلتے چلتے کوئی مانوس سی آہٹ پا کر
دوستوں کو بھی کسی عذّر سے روکا ہوگا
یاد کر کے مجھے ، نم ہوگئی ہوں گی پلکیں
آنکھ میں پڑ گیا کچھ کہہ کہ یہ ٹالا ہوگا
اور گھبرا کے کتابوں میں جو لی ہوگی بناہ
ہر سطر میں میرا چہرہ اُبھر آیا ہوگا
جب ملی ہوگی اُسے میری علالت کی خبر
اُس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما ہوگا
سوچ کر یہ کہ بہل جائے پریشانیء دل
یونہی بے وجہ کسی شخص کو روکا ہوگا
اتفاقاً مجھے اُس شام میری دوست ملی
میں نے پوچھا کہ سنو آئے تھے وہ ؟ کیسے تھے ؟
مجھ کو پوچھا تھا ؟ مجھے ڈھونڈا تھا چاروں جانب
اُس نے اِک لمحے کو دیکھا مجھے اور پھر ہنس دی
اُس ہنسی میں تو وہ تلخی تھی کہ اُس سے آگے
کیا کہا اُس نے مجھے یاد نہیں ہے ! لیکن ۔۔۔ ۔۔
اتنا معلوم ہے ، خوابوں کا بھرم ٹوٹ گیا